ڈاکٹر عبدالسلام، حقیقت کے آئینے میں — حصہ دوئم
A lecture by Dr. Pervez Hoodbhoy
A lecture by Dr. Pervez Hoodbhoy
The Eqbal Ahmad Centre for Public Education (EACPE) seeks to foster the use of science and reason to understand nature and society and so better enable all citizens of Pakistan to participate fully in the political, social, economic, and cultural life of their society; to exercise their democratic rights and responsibilities; to value human rights, democracy and the rule of law; to promote cultural and religious diversity; to raise awareness of global issues and the natural environment; and to advance the goals of international peace and justice.
EACPE is named to honour the life and work of distinguished Pakistani academic, activist, and public intellectual, Dr. Eqbal Ahmad.
“The EACPE record is very impressive, and hopeful — a rarity these days. About the webpage (design), I don’t have anything useful to say. Have little experience that’s relevant. To me personally, the range and choice of topics is appealing and impressive. I can’t think of any useful way to improve it.”
— Noam
(Received on 5th May, 2017. As a member of the EACPE board, Professor Noam Chomsky was asked to suggest how to improve our main page)
بادی النظر میں تو یوں ہی لگتا ہے کی سائنس اور مذہب کے کچھ نظریات کے بیچ آپس میں آخری درجہ کا تضاد موجود ہے۔
مذہب، تاریخ، تصور اور نظریات پر قائم عقیدہ کا نام ہے اور جس کو تجربہ کی بنیاد پر اس دنیا میں ثابت نہیں کیا جا سکتا اس کے حق میں صرف دلائل ہی دیئے جا سکتے ہیں۔
سائنس میں قائم نظریات کو بھی دلائل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔مگر اس شعبہ کو شعبۂ دین پر یہ برتری حاصل ہے کہ کسی نظریہ کو تجربہ کے فیصلہ کُن مرحلہ سے گزار کر اس کو اسی دنیا میں رد یا قبول کیا جاسکتا ہے۔
دین اگر ایک سچائی ہے تو روزِ قیامت ہی وہ دن ہو گا جب اس کا تجربہ ہو جائے گا، (تب شاید معلوم ہو گا کہ سائنس کا کوئی conflict دین سے کبھی نہ تھا) مگر مجبوری یہ ہے کہ دین کا تقاضہ ہے کہ اسی دنیا میں اس کا اقرار بِن دیکھے صرف دلائل کی بنیاد کیا جائے۔
دین اور سائنس دونوں ہی اگر قدرت کے قائم کردہ مقدمات و مظاہر ہیں تو ظاہر ہے ان میں تصادم ہو نہیں سکتا۔ ان کے بیچ نظر آنے والے تضاد کی پھر حقیقت کیا ہے؟ ان تضادات کا شعور اُن پڑھے لکھے ذہنوں کو جو سائنس کے طلبأ بھی ہوتے ہیں اور حق کے متلاشی بھی، بجا طور پر شعبۂ دین سے دور کر دیتا ہے۔ پروفیسر عبدالسلام سائنس کے بڑے سکالر تھے دین پر ان کا علم واجبی سا تھا۔ احمدی گھرانہ میں آنکھ کھولی۔ گھر کا ماحول مذہبی تھا۔آس پاس کا ماحول بھی مذہبی تھا۔احمدیوں کی تبلیغ و تربیت کے زیرِ اثر رہے۔ انہوں نے کبھی دین پر ریسرچ نہ کی۔ جو بتایا گیا قبول کر لیا۔ جیسی ریسرچ انہوں نے سائنس پر کی اس کی آدھی بھی دین پر کر لیتے تو معاملہ ان پر بالکل صاف ہو جاتا۔ ڈاکٹر ہںود صاحب نے نظریہ واحدت الوجود کے بارہ میں جو بات پروفیسر صاحب کی سنوائی جس کی کمزوری کا اقرار خود موصوف نے بعد میں کر لیا وہ نظریہ ویسے ہی خلافِ قران ہے اور بہت سے صوفیا کے ہاں مقبول ہے۔ مرزا صاحب بھی ایک صوفی پیر تھے اور اس نظریہ سے متاثر۔
میں واپس اپنی بات کی طرف آتا ہوں۔
کیا شعبہ ہائے سائنس اور دین کے افکار کے مابین تصادم واقعی موجود ہے
۔۔۔۔ یا۔۔۔۔
شعبۂ دین کے مقدمہ کے فہم میں حاملین سے کوئی تعبیری غلطی ہو رہی ہے۔۔
یہ اہم نکتہ سمجھنے کے لیئے اگر دین کے (علمأ نہیں بلکہ) اچھے سکالرز اس کو اپنا موضوع بنالیں تو ہو سکتا ہے کہ ان دونوں شعبوں کے
نظریات کی بیچ مبینہ تضادات کی حقیقت اسی دنیا میں برہنہ ہو جائے۔۔۔۔اور معلوم ہو جائے کہ ان دونوں شعبہ جات کا مالک اور خالق ایک ہی ہے۔
اور اگر یہ کنفلکٹ واقعی بہت جان کے ساتھ موجود ہے تو پھر انسان کو حقیقت کے شانہ بہ شانہ ہی کھڑا ہونا چاہیئے۔
sir we can never compare science with Religion – DEEN E ISLAM.SCIENCE changes with time but DEEN E ISLAM differentiate between good(Truth) & bad(evil).The knowledge of science is temporary, changing time to time with different minds but DEEN E ISLAM IS BASED ON MESSAGE OF ALLAH ALMIGHTY (REVEALED) ON DIFFERENT HOLY PROPHETS ( PBUH) ONLY FOCUSSING ON TRUTH,REJECTING FALSE. Here I appreciate Prof.Dr. Abdus Salam but he was especially Confused with Religion( DEEN E ISLAM)
میں اپنے کمنٹ میں پہلے ہی عرض کر چکا کہ انہوں نے یہ نظریہ قران سے نہیں لیا ۔ بس وہ ایک بات ویسے ہی کہہ گئے تھے جس کا اور اعتراف
انہوں نے بعد ازاں کر لیا تھا
Drasl unhon ne science ki taleem hasil ki thi. Jbke mzhb unke dimagh men bchpn se thonsa gya tha. Insan zarori to nahi ke taleem hasil krke apne sare tassubatat ko khtm r ske, tassubat insan ko confuse krte hen aur clear thinking men kuch rukwat ka baes bnte hen